Skip to main content

Posts

Teri Tarah Musalsal Ummat Se Gham Utha Kar

 Teri Tarah Musalsal Ummat Se Gham Utha Kar  Teri Tarah Musalsal Ummat Se Gham Utha Kar تیری طرح مسلسل امت سے غم اٹھا کر میں آرہی ہوں بابا پہلو کے ساتھ اپنے دل پر بھی زخم کھا کر میں آرہی ہوں بابا کچھ اس طرح سے میں نے سنت تیری نبھائی رب کے سوا کسی کے آگے نہ دی دہائی تاریک شب میں تنہا آنسو بہا بہا کر میں آرہی ہوں بابا اے صادق جہاں یہ دل پر ہے داغ میرے سچ کی قسم اٹھائی تھی کاذبوں نے مجھ سے  مشکل کشا کو اپنی سب مشکلیں سنا کر میں آرہی ہوں بابا رخ پر طمانچہ کھایا تھا سامنے حسن کے اس دن سے تیرے چادر چہرہ رکھا چھپا کے ہائے وہ داغ اپنے بیٹے سے بھی چھپا کر میں آرہی ہوں بابا  جس در سے تم بھی بابا بے اذن نہ تھے گزرے اس در کو جلتے دیکھا آنکھوں نے میری ہائے  محسن تو بچ نہ پایا حسنین کو بچا کر میں آرہی ہوں بابا مظلوم ہوگیا ہے فاتح جو بدر کا تھا میں نے علی کو بابا آباد پھر نہ دیکھا یوں غربت علی کو اس قلب میں بسا کر میں آرہی ہوں بابا منظر سحاب ایسا کوئی بھی لکھ نہ پایا زہرا کے رخ سے حیدر نے جب کفن ہٹایا زینب نے یہ صدا دی چادر سے سر چھپا کر میں آرہی ہوں بابا  Teri Tarah Musalsal Ummat Se Gham Utha Kar N

Kya Tum Hussain Ho

 Kya Tum Hussain Ho  Kya Tum Hussain Ho Noha Lyrics بے سر بدن پر رو کے یہ زینب نے دی صدا  اتنا بتا دو بہن کو کیا تم حسین ہو عباس کی قسم تمہیں اک بار تو ذرا اتنا بتا دو بہن کو کیا تم حسین ہو اتنے لگے ہیں تیر بدن ہے لہو میں تر پامال لاش کی بھی ہے، ٹوٹی ہوئی کمر اصغر کی طرح زخمی ہے لاشے کا بھی گلا۔۔۔  اتنا بتا دو بہن کو کیا تم حسین ہو اکبر کی سمت لاشہ ہے تیرا جھکا ہوا یہ زخمی ہاتھ سینے پہ کیوں ہے رکھا ہوا ہمشکل مصطفیٰ کا میں دیتی ہوں واسطہ اتنا بتا دو بہن کو کیا تم حسین ہو مقتل میں آئی ہوں میں سکینہ کو ڈھونڈ نے آکر ایسی جگہ پر قدم رک گئے میرے  لاشے کے پاس سوئی سے بیٹی فاطمہ  اتنا بتادو بہن کو کیا تم حسین ہو پہچان سب کی ہوتی ہے چہرے کو دیکھ کر  لیکن کسی بھی لاش کے تن پر نہیں ہے سر  میں ہاتھ جوڑ لیتی ہوں تم دے کے خود صدا  اتنا بتا دو بہن کو کیا تم حسین ہو کیسے دکھاؤں آج یہ میرا جو حال ہے پردے کا میرے تم کو یقینا خیال ہے تم خاک پر تڑپتے ہو کہتی ہوئی ردا اتنا بتا دو بہن کو کیا تم حسین ہو تیروں پہ تیری لاش ہے، پتھر میں لاش پر پتھر بھی ہو چکے ہیں جو بہتے لہو سے تر مقتل میں سب سے زخمی ہے لاشہ یہ

Tumharay Hath Rida Ban Kay

 Tumharay Hath Rida Ban Kay  Tumharay Hath Rida Ban Kay Noha Lyrics تمہارے ہاتھ ردا بن کے سر پہ جو ہوتے  تو کر بلا سے نہ جاتی میں بے ردا عباس  ردائیں مانگ کے روتی نہ شام والوں سے  تو کربلا سے نہ جاتی میں بے ردا عباس کس احترام سے پردے میں مجھ کو لائے تھے  حسین قاسم و اکبر تھے گرد محمل کے  سبھی کے لاشے زمیں پر نہ یوں پڑے ہوتے نہ حق تھا مال غنیمت میں وہ ردا جاتی  میرے لئے جو نشانی تھی اماں زہرا کی  نجف سے بابا علی جو بچانے آجاتے یہ دیکھ خیمے سے مقتل میں کیسے آئی ہوں  رسن میں تیری سکینہ کو ساتھ لائی ہوں  دکھاتے نیزے سکینہ کو نہ اگر ایسے ہجوم عام میں روتی ہوں بے ردا ہو کر  یہ بہن رہ گئی اب خود ہی مرثیہ ہو کر  سناں سے گر کے ردا جو بہن کومل جائے جو پہلی بار میں کوفے میں آئی تھی گھر سے  تو بابا خود میرا محمل تھے تھامنے آئے  وہی ردا وہی پردہ جو تم بنا لیتے گرا تھا ہو کے تو بے دست خاک پر جیسے  گری ہوں میں تیرے لاشے پہ باوفا ایسے  رسن میں نہ میرے باز و اگر بندھے ہوتے میں اپنے ہاتھوں سے زخموں کو صاف کر لیتی  ردا میں لاش کے ٹکڑے سمیٹ کر جاتی  سناں سے مارتے ظالم اگر نہ لے جاتے  Tumharay Hath Rida Ba
 Yateem Jeetay Hain Kesay  Yateem Jeetay Hain Kesay Noha Lyrics یتیم جیتیں ہیں کیسے بتادو اے بابا  چلے ہو تم بھی سکینہ کو چھوڑ کر بابا بتاؤ کیسے جیوں گی میں شام تک بابا زرا سی خاک میرے سر پہ ڈال کر جاو  میری یتیمی کا تم خود ہی مجھ کو پرسہ دو  تمہارے بعد طمانچوں کا دور آئے گا جو ہو گی شام غریباں تو سونے آوں گی  تمہارے لاشہ بے سر پر رونے آوں گی  سکینہ کہہ کے مجھے تم وہاں بلا لینا میں زندہ لاش سے زیادہ تو کچھ نہیں تم بن تمہارا رکنا اے بابا اگر نہیں ممکن بتاؤ کون طمانچوں سے اب بچائے گا پھوپھی جو چہرے کو ہاتھوں پر رکھ کے روتی ہے  پلٹ کے خیموں کو جاتی ہے مر کے گرتی ہے  سنان کی نوک پر آئے گی اب پھوپھی کی ردا اتار دو میرے کانوں سے بالیاں خود ہی میں ان کو شمر سے بابا چھپا نہ پاوں گی  وہ ننھے ہاتھوں پہ درے جب آئے مارے گا لیئے چلو مجھے ورنہ میں جی نہ پاؤں گی  میں زوالجناح کے پیروں سے لپٹی آؤں گی  مجھے بھی ساتھ ہی اصغر کے دفن کر دینا چچا بھی نہ رہے حشر کا وقت سر پر ہے دیکھو ابھی سے لوگوں کے ہاتھوں میں پتھر ہے  وہ ہاتھ اُٹھائیں تو اب کون ان کو روکے گا بتاؤں کس کے سہارے پر چھوڑ جاتے ہو  نجف کی راہ د

Lash Sarwar Se Lipat Kar Noha Lyrics

 Lash Sarwar Se Lipat Kar  Lash Sarwar Se Lipat Kar Noha Lyrics  لاش سرور سے لپٹ کر کہ رہی بیٹی  اٹھو  بابا سکینہ ہے بلانے آئی  ننھے ہاتھوں میں ہے امت نے رسن پہنائی ڈر ہے چھن جائے نہ ہمارے چادر لوٹ آ جاؤ خدارا نہ رہو دریا پر کبھی عمو سے نہ مانگوں گی کبھی میں پانی بھوک ہے پیاسی ہے شعلے ہیں رسن بسته حرم کوئی ایسا نہیں باقی جو نہ ڈھائے ہو ستم  حسرت و یاس کے عالم میں بے اولاد نبی لے کے درے ہے میرے پاس کھڑا شمر لعیں  خوف ہے یہ مجھے ڈھائے نہ ستم اور کہیں  کان زخمی ہیں میرے چھینیں گئی ہے بالی لاشے بکھرے پڑے مقتل میں ہے بے گورو کفن  کون دفنائے عزیزوں کے ہے ہاتھوں میں رسن عمر چھوٹی ہے سکینہ کی مصیبت ہے بڑی عالم غش میں ہے بھائی میرا مظلوم امام  کس کو آواز دوں دشت میں جلتے ہیں خیام بھائی اکبر نے ہے سینے پہ سناں ہے کھائی دینا بیٹی کو دعا ہے میرا دشوار سفر  میں پکاروں کسے بڑھ جائے ستم مجھ پر کر  بے بسی بھی ہے یتیمی  ہے بنی ہے قیدی سوتی سینے پہ تھی تیرے ہے یہ معلوم تجھے نیند کب شام کے زنداں میں آئے گی مجھے بے کفن دھوپ میں بابا ہے پڑی لاش تیری  Lash Sarwar Se Lipat Kar Noha Lyrics in Urdu Text laash

Sakina Rakh Kay Sar Seenay

Sakina Rakh Kay Sar Seenay Sakina Rakh Kay Sar Seenay Noha Lyrics  سکینہ رکھ کے سر سینے پہ بابا سے یہ کہتی ہے  اٹھو اک بار تو دیکھو ذرا زخمی میرا چہرہ  میں جاؤں چھوڑ کر کیسے تیرا یہ بے کفن لاشہ،  اٹھو اک بار تو دیکھو ذرا زخمی میرا چہرہ گھڑی ہے آ گئی شاید جدا اب تجھ سے ہونے کی  لپٹ کر تیرے سینے سے مجھے سونے کی عادت تھی  تجھے معلوم ہے مشکل ہے بن تیرے میرا جینا،  اٹھو اک بار۔۔۔ لعیں درے لیے ہاتھوں میں بابا ساتھ ہے میرے  میری قسمت میں ہے شاید قضا زنداں کے اندھیرے  سفر اب میرا مشکل ہے مجھے بابا دعا دینا اٹھو اک بار۔۔۔ خدا جانے لگی کسی کی نظر میرے بھرے گھر کو  کٹے عمو کے ہیں شانے لگا نیزہ ہے اکبر کو  ستم کے تیر سے مارا علی اصغر کو بھی پیاسا اٹھو اک بار۔۔۔ اندھیرے قید خانے میں، میں پل بھر سو نہ پاؤں گی میں رو رو کر تیرے غم میں زمانے کو بلاؤں گی کہاں وہ خاک کا بستر کہاں بابا تیرا سینہ  اٹھو اک بار۔۔۔ ہیں خیمے جل رہے غش میں ہے بھائی عابد بیمار  یہی وارث بچا ہے اور یہی ہے قافلہ سالار  ابھی اس حال میں آل نبی کو شام ہے جانا  اٹھو اک بار۔۔۔ ردا چھینی ہے گردن میں رسن میری ہے پہنائی  ہے یہ افسوس تجھ

Bazar Se Ye Abid Kehta Noha Lyrics

Bazar Se Ye Abid Kehta Bazar Se Ye Abid Kehta Noha Lyrics   بازار سے یہ عابد کہتا گزر گیا ہے  ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا کھائے ہیں تازیانے عابد جدھر گیا ہے  ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا ہے ہم کو پھرا رہے ہیں قیدی بنا کے در در  زھرا کی بیٹیوں کے سر پر نہیں ہے چادر  کہتے ہیں ہم سے ظالم غازی کدھر گیا ہے ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا ہے ماں بہنیں رو رہی ہیں بالوں سے منہ چھپائے  ہر بی بی سوچتی ہے سجاد مر نہ جائے  نامحرموں سے ہر سو بازار بھر گیا ہے  ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا ہے ماؤں کے ساتھ ظالم بچوں کو باندھتے ہیں  وه مار کر طمانچے رسیوں کو کھینچتے ہیں  جس سمت ہے سکینہ ظالم ادھر گیا ہے  ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا ہے زینب کو دیکھ کر یہ کہتا ہے ہر ستمگر  حیدر کی بیٹیاں ہیں برساؤ ان یہ پتھر  گھٹنوں کے بل زمین پر سجاد گر گیا ہے  ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا ہے اکبر کے سر سے لیلی رو رو کے کہہ رہی ہے  ظالم بھی کہہ رہے ہیں تو ہو بہو نبی ہے  سینے میں کیسے تیرے نیزہ اتر گیا ہے  ہر اک قدم پہ بابا سجاد مر گیا ہے غش کھا کے تیری بیٹی بابا گری ہوئی ہے  اتنے طمانچے کھائے بے حال ہو گئی ہے  رخسا

Ghurbat Tarap Ky Ro Pari Noha Lyrics

 Ghurbat Tarap Ky Ro Pari  Ghurbat Tarap Ky Ro Pari Noha Lyrics  غربت ترپ کے رو پڑی اکبر کی لاش پر ماں ہاتھ ملاتی ره گئی اکبر کی لاش پر سینے  پہ جب حسین نے زانوں کو رکھ دیا روتی رہی وہ برچھی بھی اکبر کی لاش پر وہ جو تڑپتی رہ گئی ماں سننے کے لئے پہنچے نه اے خدا کبھی اکبر کی لاش پر تنہائیوں کے کرب سے صغریٰ کو یہ لگا جیسے کہیں وہ بیٹھی تھی اکبر کی لاش پر جس جا گرا ہے تو میرے زینب کا نور عین بینائی شہ کی نا رہی اکبر کی لاش پر لکھا لہو سے ہجر کی ملکہ کو الوداع بہتر ہے تو نه آسکی اکبر کی لاش پر امت نے مار ڈالا ہے شبیہ رسول کو بنت بتول پڑی اکبر کی لاش پر مہدی نے دے دیا قلم اشک عزا کے ساتھ نوحه جو لکھنے میں لگی اکبر کی لاش  Ghurbat Tarap Ky Ro Pari Noha Lyrics in Urdu Text gurbat tarap ke ro pari akbar ki laash par maa haath milati rh gayi akbar ki laash par seenay pay jab Hussain ne zaanon ko rakh diya roti rahi woh barchhi bhi akbar ki laash par woh jo tadapti reh gayi maa suneney ke liye puhanche نه ae kkhuda kabhi akbar ki laash par tanhaiyon ke karb se sughra ko yeh laga jaisay kahin woh

Kuch Der Laga Lo Seenay Say Noha Lyrics

 Kuch Der Laga Lo Seenay Say  Kuch Der Laga Lo Seenay Say Noha Lyrics کچھ دیر لگا لو سینے سے ، دشوار ہے جینا بابا  زنداں سے شاید آ نہ سکے ، اب تیری سکینہ بابا  غازی نہ رہا تو پھر کوئی امید رہی نہ بابا، دشوار ہے جینا بابا دامن میں بھڑکتے ہیں شعلے کانوں سے لہو ہے جاری  امت کی شکایت کرنے کو مظلومہ کہاں جائے گی  نہ راہ نجف کی ملتی ہے نہ راہ مدینہ بابا ، دشوار ہے جینا بابا بکھرے تھے زمین کربل پر قاسم کے بدن کے ٹکرے  افسوس شقی نے کاٹ دیئے عباس جری کے شانے  اکبر کا ستم کی برچھی سے زخمی ہوا سینہ بابا ، دشوار ہے جینا بابا یہ اجر رسالت خوب دیا امت نے ہمیں نانا کی  خیمے بھی جلائے غربت میں زینب کی ردا بھی چھینی  پہلو میں ہماری ماؤں کے بچوں کو بھی چھینا بابا ، دشوار ہے جینا بابا صورت میں نبی کے جیسے ہیں ، سیرت میں علی کا ثانی  بچوں سے سکینہ کہتی تھی لے آئے گا عمو پانی  غازی نہ رہا تو پھر کوئی امید رہی نہ بابا ، دشوار ہے جینا بابا ہم سب کو رلانے لگتی ہے غمگین جو ہو جاتی ہے  سینے پہ سدا سونے والی اب خاک پر سو جاتی ہے  مشکل ہے تمہاری بیٹی کا اس حال میں جینا بابا ، دشوار ہے جینا بابا پڑھتے ہیں نبی کا ک

Lahoo Rota Raha Abbas Noha Lyrics

 Lahoo Rota Raha Abbas  Lahoo Rota Raha Abbas Noha Lyrics  قدم تھا پہلا زینب نے رکھا خیمے سے جب باہر  لہو روتا رہا عباس  بہن پہلی دفعہ پردے سے نکلی تھی ردا کہہ کر  لہو روتا رہا عباس بہن کے پاک قدموں کا نشاں تک جو مٹاتا تھا  جسے شہزاری کہہ کر وہ ہمیشہ سر جھکاتا تھا اسی زینب کو جب دیکھا پہن کے خاک کی چادر لہو روتا رہا عباس کبھی روتے نہیں دیکھا تھا غازی نے سکینہ کو دکھا کر غازی کو ظالم رلاتا تھا یتیمہ کو وہ جب عباس کہتی تھی طمانچے شمر سے کھا کر لہو روتا رہا عباس کٹے بازو تڑپتے تھے سکینہ جب بھی گرتی تھی  وہ غازی سے سہارے کے لئے ہاتھوں کو پھیلاتی   تو درے مارتا ظالم تھا اُس کے ننھے ہاتھوں پر لہو روتا رہا عباس وہ جس نے خیمہ زینب کو بھی پردے میں رکھا تھا  سہے گا کیسے وہ غازی بہن کا بھیٹر میں آنا یہ کہہ کے گر پڑا عابد زمیں پہ جب غش کھا کر لہو روتا رہا عباس سر زینب کوئی دیکھے تو سر گرتا تھا نیزے سے  توجہ شام والوں کی ہٹادیتا تھا وہ ایسے  خود اپنے سر پہ کھاتا تھا ہجوم عام میں پتھر لہو روتا رہا عباس کہیں تاریخ غربت میں نہیں سالار ایسا ہے کہ جس کی لاش پر بہنوں کو دشمن بے ردا لائے  مگر زینب کے غازی